26. کعبہ اور اسکی تعمیر
Introduction > 8. Important Information >
کعبہ اور اسکی تعمیر
لفظی طور پر ، عربی زبان میں کعبہ کا مطلب ایک اعلی مقام ہے جس میں عزت و وقار ہے۔ لفظ کعبہ بھی لفظ مکعب سے اخذ کیا گیا ہے ۔ کعبہ کے کچھ دوسرے نام بھی ہیں جو حسب ذیل ہیں
1. بیت العتیق - جس کے ایک معنی ہیں پہلا اور قدیمی اور دوسرے معنی ہیں آزاد یا آزاد کرا ہوا ۔ دونوں معنی لیے جاسکتے ہیں۔
2. بیت الحرام - کے معنی ہیں عزت والا گھر- ساتویں آسمان پر بیت المعمور ہے جو زمین پر موجود کعبہ کی عکاسی کرتا ہے یہ کعبہ سب سے پہلے حضرت آدم نے بنایا تھا قران مجید میں اللہ نے فرمایا کہ کعبہ پہلا مکان تھا جو انسانیت کے لئے تعمیر کیا گیا تھا جو اللہ کی عبادت کرنے کے لئے بنایا گیا
جب زمزم کا پانی قبیلہ جرہم کے ایک کارواں نے دیکھا تو انہوں نے حضرت ہاجرہ سے قریب میں آباد ہونے کی درخواست کی اور اس طرح جرہم کا قبیلہ وہاں بس گیا۔اس کے بعد ، حضرت ابراہیم اور اسماعیل نے کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا۔اللہ کا حکم ملنے پر ، حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کی مدد سے اللہ کا مقدس گھر تعمیر کیا تھا۔ تعمیراتی کام کے دوران وہ اللہ سے دعائیں مانگتے رہے۔ “اے ہمارے رب! ہماری اس خدمت کو قبول فرما، کیونکہ تو سننے والا ، جاننے والا اور رحم کرنے والا ہے
جب اللہ کے قریب ترین ابراہیم نے یہ مقدس گھر بنایا ، تو انہوں نے اسے اسی وضاحت کے مطابق بنایا جو دی گئی تھی ۔اس کی چھت نہیں تھی۔ انہوں نے دروازے کا فریم بھی بنا لیا تھا لیکن اسے لےگایا نہیں تھا ۔ وہ اسی طرح قائم رہا جب تک ہیمیار قبیلے کے ٹوبا نے دروازہ بنا کر اسے مقدس گھر میں نہیں لگایا ۔ .
II. خانہ کعبہ صدیوں تک ایسا ہی رہا پھر اچانک گر گیا ، عما لقہ کے قبیلے نے اس کو پھر سےبنایا دیا۔ یہ کئی سال تک جاری رہا۔
III. پھر ایک دن موسلا دھار بارش کے نتیجے میں ، اس کی ایک دیوار ٹوٹ گئی لیکن گری نہیں
قبیلہ جرہم نے اس دیوار کی مرمت کی اور دروازہ کو تالا لگایا۔
IV. کعبہ کی آرائش قو آسی بن کلب نے کی اور اس کی چھت بھی بنائی
V. نبی اکرم کے دادا محترم نے زم زم کے کنویں کو دو بارہ اسی جگہ کھد وایا جہاں پہلے تھا ان کو یہ کام کرانے پر بہت عزت ملی اور انکا اثر و رسوخ اور بڑا
VI.اہل قریش کے ذ ریعے کعبہ کی تعمیر کی
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالغ ہوئے ، اس وقت آگ نے کعبہ کو شدید نقصان پہنچایا ۔ اس کے نتیجے میں لوگوں نے کعبہ کو پوری طرح گرادیا ۔ پھر اہل قریش انہوں نے اسے دوبارہ تعمیر کرنا شروع کیا۔ جب یہ کام کالے پتھر ( سنگ اسود) رکھنے کے مقام پر پہنچا تو ان کے آپس جھگڑا ہو گیا کہ یہ مبارک پتھر کونسا قبیلہ رکھے گا اور کس کو یہ ا عزاز ملے گا ۔ بالآخر ، انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کل صبح بنو شیبہ کے دروازے میں داخل ہونے والا پہلا آدمی ان کے لئے اس بات کا فیصلہ کرےگا ۔
صبح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے داخل ہوئے۔ اس بات کا فیصلہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کیا کہ انہوں نے ایک کپڑا مانگا جس پر انہوں نے اس نے پتھر کو بیچ میں رکھا۔ پھر ہر قبیلے کے آدمی کو حکم دیا کہ وہ اس کپڑے کو سب مل کر
اٹھائیں جب سب نے مل کر اسے اپنی جگہ پر سے اٹھا لیا۔ پھر ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی مناسب
جگہ پر نسب کر دیا
کالا پتھر یا حجرے اسود
کالا پتھر یا حجرے اسود (سنگ اسود ) کعبہ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے ، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کعبہ کی تعمیر کے دوران ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل سے کہا کہ وہ ایک پتھر لے آئین ۔ جب اسماعیل پتھر لے کر آئے تو ، ابراہیم نے اسے خانہ کعبہ کے مشرقی کونے میں نسب کیا اور اسے طواف کے نقطہ آغاز کے طور پر طے کیا ۔ اب یہ حجرے اسود یا سنگ اسود کے نام سے جانا جاتا ہے جو قطر میں
٣٠ سینٹی میٹر یعنی ١٢ انچ ہے اور اسکے اطراف میں چاندی کا فریم ہے - افرچہ اس کو بوسہ دینا واجب نہیں ہےچونکہ اللہ کے رسول نے اس کو بوسہ دیا تھا اسلئے حجاج اس پتھر کو بوسہ دیتے ہیں
ابیس بن ربیعہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر سنگ اسود کے قریب آ ئے اور اس کو چوما اور کہا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ تم ایک پتھر ہو اور نہ ہی کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہو اور نہ ہی کسی کو نقصان ، اگر اللہ کے رسول نے تجھے نہ چوما ہوتا تو میں بھی تجھے کبھی نہیں چومتا ۔
VII. عبدللہ بن الزبیر کے ذریعہ کعبہ کی مرمّت
یزید بن معاویہ کے دور میں کعبہ کو آگ لگنے سے نقصان پہنچا تھا۔ ابن الزبیر نے کعبہ کی مرمّت کی۔ اس کے علاوہ ، انہوں نے قباطی (مصری لینن کپڑا) سے کعبہ کو غلاف سے ڈھانپ لیا
VIII. آٹومن امپائر (سلطنت عثمانیہ ) کے مراد خان نے کعبہ کی تعمیر کرائی
مکّہ میں ١٩ شعبان سنہ ١٠٣٩ ھجری یعنی بدھ کے دن بارش شروع ہوئی اور اس طوفانی بارش نے زبردست ہنگامہ برپا کر دیا اس بارش نے کعبہ کو شدید نقصان پہنچایا اور یہ بارش عرصے تک جاری رہی - بارش ختم ہونے پر مسلمان کعبہ کی تعمیر نو کے لئے تیاری کرنے لگے ٢ ذلحج سنہ ١٠٤٠ ھجری سے اس کی تعمیر شروع ہوئی اور اس کو پورا ہونے میں ساڑےچھ ماہ کا عرصہ لگا
IX. سنہ ١٩٩٦ میں کعبہ کی تعمیر
یہ کام مراد خان کے گزرنے کے چار سو سال بعد شروع کیا گیا یہ تعمیری کام مئی ١٩٩٦ سے اکتوبر ١٩٩٦ تک جاری رہا اور اس دوران کعبہ کے پتھر باقی رہے دیگر اشیا ء جیسے لکڑی وغیرہ نہیں رہی نئے سرے سے لکڑی کا کام کیا گیا اور چھت بھی نئی لکڑی کی بنائی گئی ۔
X. کعبہ کے اندر کیا ہے؟
اللہ ربُّ العزت نے مجھ گناہ گار کو اپنے معّزذ گھر کے اندر یعنی خانہ کعبہ کے اندر بلایا یہ غُسلِ کعبہ ١٠ جون سنہ ٢٠١٣ کو ہوا تھا جس میں مجھ گناہ گار نے شرکت کی تھی اندر جانے کے بعد میں نے چھ رکعتیں ادا کی تھیں اور اپنے خاندان کے افراد اور دیگر مسلمان بھائیوں کے لئے دعا ئے خیر کیں -کعبہ کے اندر کی مزید تفصیل حسب ذ یل ہے
مکعب کے بیچ میں اندر تین لکڑی کے ستون ہیں
چھت سے کچھ لالٹین قسم کے لیمپ لٹکے ہیں
ایک وقت میں کعبہ کے اندر قریب ٤٠ افراد آ سکتے ہیں
اندر بجلی کے لائٹ نہیں ہیں
دیواریں اور فرش صاف سنگ مر مر کی ہیں
اندر کعبہ کی دیواروں میں کھڑکیاں نہیں ہیں
اندر داخل ہونے کے لئے صرف ایک ہی دروازہ ہے
کعبہ کی دیواریں زمین سے قریب سات فٹ کے اوپر اندر کی طرف سے پردوں سے ڈھنکی ہیں
XI. کعبہ کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی
کعبہ کی موجودہ اونچائی ٣٩ فٹ ٦ انچ ہے کعبہ کی دیواریں ٣ فٹ ٣ انچ موٹی ہیں کعبہ فرش سے ٧ فٹ
٢ انچ اونچا ہے لمبائی ٣٦ فٹ اور چوڑائی ٢٥ فٹ ٥ انچ ہے اور ایک وقت میں قریب ٤٠ افراد کعبہ
کے اندر آ سکتے ہیں چھت ساگوں کی لکڑی سے بنی ہے