28. زم زم شریف

Introduction‎ > ‎8. Important Information‎ >

زمزم کا پانی

زم زم کا پانی خشک وادی کے مرکز میں ایک معجزاتی زیر زمین پانی ہے اس پانی کی کہانی تقریباً ٤٥٠٠

سال پہلے شروع ہوئی تھی قرآن مجید کے مطابق اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا تھا

کہ وہ اپنی اہلیہ ہاجرہ اور ان کے بیٹے اسمٰعیل کو ایسی جگہ لے جائیں جہاں اب مکّہ واقع ہے حضرت

ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور بیٹے اسمٰعیل کے ساتھ سفر کیا اور انہیں ایسے مقام پر چھوڑا جہاں نہ پانی

تھا اور نہ ہی کوئی رہائش- حضرت علیہ السلام نے ان کو کچھ کھجوریں اور پانی کی ایک چھاگل دے کر

جانے لگے تو حضرت ہاجرہ نے ان سے کہا ، اے ابراہیم تم ہم کو چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو ؟ کیا آپ

ہمکو اس وادی میں چھوڑ کر جا رہے ہو جہاں نہ تو انسان ہے اور نہ جاندار ؟ حضرت ہاجرہ کے کئی بار

دوہرانے پر بھی انہوں نے جواب نہیں دیا – بلآخر ، حضرت ہاجرہ نے کہا کہ کیا ، اللہ نے آپ کو ایسا

کرنے کا حکم دیا ہے ؟ اس پر انہوں نے جواب دیا " ہاں " ٹیب حضرت ہاجرہ نے کہا پھر اللہ ہمیں

ہلاک نہیں ہونے دیگا ! " حضرت ابراہیم کے جانے کے بعد جب حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے اسمٰعیل

کا پانی ختم ہوا اور کچھ ہی دیر بعد بچہ پیاس کی شدّت سے رونے لگا تو انکی والدہ برداشت نہ کرسکی وہ

قریب کی پہاڑی الصفا پر جا کر کھڑی ہوئیں یہ دیکھنے کے لئے کہ شاید کوئی مدد کرنے والا ملے بے

چین ہوکر وہ سامنے دوسری پہاڑی المروہ پر کھڑی ہوئیں اور چاروں طرف دیکھا اس کے بعد انہوں

نے سات بار اس کو دوہرایا – اپنے بیٹے کے لئے وہ شدّت سے پانی کی تلاش کرتی رہیں چونکہ وہ پانی

کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتی رہیں (اسی وجہ سے زائرین ان دونوں پہاڑیوں کے

درمیان سعی کرتے ہیں ) - جب آخری مرتبہ وہ پہاڑ مروہ پر پہنچیں تو انہوں نے ایک آواز سنی ، یہاں

پر اللہ نے ان کی مدد کے لئے حضرت جبریل علیہ السلام کو بھیجا حضرت جبریل نے اپنے پیر کو زمین

پر مارا ، یہ وہ جگہ تھی جہاں اسمٰعیل اپنے پیر زمین پر رگڑ رہے تھے ، یہاں سے پانی پھوٹ پڑا – پانی

کے بہاؤ کو روکنے کے لئے حضرت ہاجرہ نے زم زم کے لفظ کو دوہرایا – اللہ کے فضل سے وہاں ایک

تالاب نظر آنے لگا

کچھ دیر بعد جُرہَم قبیلے کا ایک گروہ قریب سے گزر رہا تھا – انہوں نے دیکھا کہ ایک پرندہ ایک جگہ منڈلا

رہا ہے- ان کو پانی ہونے کا شک ہوا تو انہوں نے دو غلاموں کو بھیج کر اس جگہ کو تلاش کیا - جب

دونوں متلاشیوں نے پانی کی جگہ تلاش کر لی اور واپس آکر جگہ کے بارے میں قبیلے کے لوگوں کو بتایا

پھر قبیلے کے لوگ بھی پانی کی جگہ پہنچ گئے اور حضرت ہاجرہ سے اس جگہ آباد ہونے کی اجازت طلب

کی - حضرت ہاجرہ نے ایک شرط کے ساتھ وہاں آباد ہونے کی اجازت دی کہ اس پانی پر قبیلے کا کوئی

حق نہ ہوگا قبیلے کے لوگوں نے اس شرط پر اتفاق کیا اور اس طرح وہاں ایک شہر کی بنیاد پڑی جو بعد

میں مکّہ کے نام سے مشہور ہوا-

کچھ عرصے بعد جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیوی اور بچے کی خیریت معلوم کرنے آئے تو وہاں ایک

آباد شہر دیکھا- اسلامی روایت کے مطابق ابراہیم نے کنویں کے مقام پر اسمٰعیل کے ساتھ ملکر اللہ کا

گھر دوبارہ تعمیر کیا ، ایک ایسی عمارت جس کی ابتدا ءحضرت آدم نے کی تھی – آج وہ خانہ کعبہ کہلاتا

ہے اسی کعبہ کی طرف رخ کرکے دنیا کے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں

کئی سال گزرنے کے بعد اس کنویں کا نشان مٹ گیا تھا پھر اس کو اللہ کے رسول کے دادا

حضرت مُطِلّب نے تلاش کیا اور اس کو صاف کرایا جو آج تک قائم ہے–

سنہ ١٩٧١ سعودی حکومت کے شاہ فیصل نے زم زم کے پانی کو اس بات کی پوری طرح تصدیق کرائی

تھی کہ یہ پانی پینے کے لئے موزوں ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں انہوں نے وزرات ذرا عت اور

آبی وسائل کو حکم دیا تھا کہ اس پانی کے نمونے یورپی لیبا رٹریوں کو بھیج کر تحقیقات کرائیں – اس

کے ساتھ ہی پانی کے نمونے جدہ کی لیبارٹری کو بھی جانچ کے لئے بھیجے گئے تھے –

دونوں جگہ جانچ کے نتائج یکساں رہے – یہ بھی نتیجہ ملا کہ اس پانی میں کیلشیم اور مگنشیم کی تعداد عام

پانی سے زیادہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ملی تھی کہ اس پانی میں فلو رائیڈ بھی

موجود ہیں جن میں موثّر جراثیم کشی کا عمل ہوتا ہے مزید یہ بھی تصدیق کردی گئی تھی کہ پانی پوری

طرح پینے کے لئے موزوں اور مفید ہے اس کے بعد کے بعد وزرات نے جدہ پاور اینڈ ڈی سیلی نیشن

پلانٹس کو بھی پانی کے جانچ کی زممداری دی -وہاں کےزممیدار افسروں نے اس طرح نتائج دئے -

یہ کنواں صدیوں پہلے وجود میں آیا اس میں سے ہزاروں گیلن پانی نکالا جاتا ہے ایک شخص کو اس

کنویں میں اتارنے کے بعد اس نے بتایا کہ کنویں میں پانی کا وسیلہ یہ تھا کہ کنویں کی تہ میں پانی کی

آمد سے ریت رقص کر رہی ہے اور کنویں کے بستر سے پانی نکل رہا ہے دراصل بستر کے ذ ریعے

کنویں میں پانی کا بہاؤ یکساں ہے ، اس طرح پانی کی سطح مستحکم رہتی ہے – جب شاہ فیصل کو اس کی

اطلا ع ملی تو وہ بہت خوش ہوئے تھے ۔

زم زم کے پانی کی خصوصیات

اس کنویں نے ہمیشہ پانی کی ضرورت کو پورا کیا ہے اور کبھی نہیں سوکھا – جب سے وجود میں آیا ہے

اس نے نمک کی ضررورت اور مزہ کو برقرار رکھا ہے سارے عالم نے اس کو بہترین پینے والا پانی

بتایا ہے حج اور عمرہ کے لئے پوری دنیا سے زائرین مکّہ تشریف لاتے ہیں اور اس پانی کے لاکھوں لیٹر

استمعال کرتے ہیں – اس پانی کو پینے میں زائرین خوب لطف اٹھاتے ہیں اور ساتھ ہی پنےساتھیوں

کے لئے اپنے اپنے ملکوں میں اس کو لے بھی جاتے ہیں لیکن آج تک اس پانی کے خلاف کوئی

دوسرے کنووں کے برعکس اس کنویں میں حیاءتاتی نشونما اور نباتات کبھی موجود نہیں تھے اور نہ ہو

سکتے ہیں اس وجہ سے اس پانی کا کبھی بھی کیمیاوی علاج نہیں کیا گیا اور نہ کلوری نیکیشن کیا گیا

تکنیکی معلومات

سعودی عرب میں جیولوجیکل سروے کے لئے زم زم اسٹڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر بنایا گیا ہے جو زم ذم

کے پانی کی تکنیکی خصوصیات کا تجزیہ کرتا ہے

پانی کی سطح کی نگرانی ہائیڈرو گراف کے ذریئے کی جاتی تھی جو آجکل ڈیجی ٹل نظام کے ذریئے کی جاتی

ہے یہ نظام ،پانی کی سطح ، برقی چال ، پی اچ ، ئی اچ اور درجہ حرارت کا پتہ لگاتا رہتا ہے

یہ معلومات انٹر نیٹ کے توسط سے ہمیشہ دستیاب رہتی ہے

زمینی سطح سے پانی کی سطح ٣ ء۲۳ میٹر تقریباً ١٠ء٥٩ فٹ ہے ٢٤ گھنٹے میں ٨٠٠٠ لیٹر ایک

سیکنڈ کی در سے پانی پمپ کرنے پر پانی کی سطح میں کمی دیکھی گئی ۔ جب پمپنگ رک گئی تو صرف ١١

منٹ بعد پانی کی سطح بحال ہوگئی۔ اس اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مکہ کے آس پاس کے پہاڑوں

میں چٹانوں کے ٹوٹ جانے سے کنویں کا پانی بحال ہوتا رہتا ہے

زمزم کے پانی کا کوئی رنگ اور بو نہیں ہے ، لیکن اس کا الگ ذائقہ ہے ، اور اس کا پی اِچ ٧ ء٩ -١٠

ہے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی حد تک سمندری پانی کی طرح ہے۔کیمیائی تجزیہ کی وجہ سے

یہ پانی بین الاقوامی خصوصیات کا درجہ رکھتا ہے ، خاص طور پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او)

کی خصوصیات سے مطابقت ہونے کے بعد ، زمزم کے پانی کو بہترین پینے کا پانی بتایا گیا ہے اور ساتھ ہی

جسمانی صحت پر اس کے فائدہ مند اثر کو بھی ثابت کیا۔

معدنیات کتنی فیصد دستیاب ہیں

کلشیم = ١٩٨ ، مگنشیم = ٤٣ ء٧ ، کلورا یڈ = ٣٣٥ ،

سلفر = ٣٧٠ ، آئرن = ۰ء١٥ ، منگنیز = ٠ ء١٥ ،

کاپر = ٠ ء ١٢

(محکمہ واٹر اینڈ ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ ، مغربی صوبہ سعودی عرب

کی لیبارٹری میں کے گئے مطالعے کا تجزیہ )